(Article #2) میری کہانی میری زُبانی

  • ایک واقعہ جو میرے ساتھ سکول میں ہوا تھا اس وقت میں دسویں جماعت میں پڑھ رہا تھا. چھٹا مہینہ تھا سر نے اطلاع دیں سب سٹوڈنٹ کو ۔پانچ دن کے بعد ہم لوگ ٹریپ جا رہے ہیں۔اگر آپ اسٹوڈنٹ میں سے اگر کوئی جانا چاہتا ہے تو پلیز لسٹ میں نام لکھنؤ۔ ہمارے کلاس کے سب لڑکوں نے نام لکھ لیا میرے کچھ دوست تھے انہوں نے بھی نام لکھ لیا لسٹ میں مجھے انہوں نے کہا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ ساتھ چلے جاؤ۔لیکن میں نے کہا کہ نہیں انکے مجھے پتا تھا کہ مجھے گھر سے اجازت نہیں ہے۔14 تریخ تھا اور 15 تاریخ کو ٹریپ جانے والا تھا۔ تاریخ کو سکول میں گھنٹی

    بجی ۔ پہلا کلاس شروع ہو گیا میتس کا گلاس تھا ہم سٹوڈنٹ کو سر نے کہا۔کے سب باہر گراونڈ میں بیٹھو درخت کے نیچے۔وہاں پہ میتس کے سوالات حل کرتے ہیں۔ اس ہی وقت میرا ایک دوست نے استاد سے کہا کہ طفیل کو کہو کے ہمارے ساتھ ٹریپ پر جائے۔استاد مجھے کہنے لگا کہ طفیل تم کیوں نہیں جاتے ہو ٹریپ پر۔میں نے کہا کے استاد جہاں عام لوگ جا رہے ہو وہ جگہ میں دیکھ چکا ہوں۔ استاد نے کہا کہ طفیل بیٹھا مجھے پتہ ہے کہ آپ اپنے گھر والے سے ڈرتے ہو آپ کو اجازت نہیں ھے۔کوئی بات نہیں میں آپ کے گھر والوں سے بات کرتا ہوں۔

    میں نے ہنس کے کہا اچھا۔

    کیونکہ میرا کزن میرے استاد کا دوست تھا۔ 

    چھٹی ہوگی جب میں گھر چلا گیا۔     

    رات کے کھانے کے لئے ہم سب ساتھ میں بیٹھ گئے۔

    ابو ۔انکل ۔کزن۔  اس ہی دوران میں میرے استاد نے فون کیا میرے کزن کو۔کزن نے مجھ سے کہا کہ طفیل آپ ٹریپ پر جانا چاہتے ہو۔میں حیران ہو گیا تھا کہ کیا کہوں۔چلا جاؤں نہ جاؤ  یہی بس سوچ رہا تھا۔

    گھر سب کہہ  رہے تھے چلے جاؤ انجوائے کرو دوستوں کے ساتھ۔

    تو پھر مجھے لگا کہ آپ کو طفیل چلا جانا چاہیے۔

    میں نے بہن کو کہہ دیا کہ لئے بیگ تیار کرو۔ میں بہت خوش تھا۔ صبح سویرے اٹھ کر نماز پڑھ لیں پہلے پھر سکول چلا گیا۔جب سکول میں داخل ہوا تو دیکھا لڑکے بہت زیادہ تھے. اور ایک دوسرا استاد بھی تھا جس نے ایک اور شاگرد کو بلایا ۔ہم دونوں ایک ساتھ میں کھڑے ہوئے تھے۔وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ طفیل تم تو نہیں جانے والے تھے۔میں نے اسے کہ دیا کہ میری کزن کو استاد نے فون کیا تھااور اور وہ استاد میری کزن کا دوست بھی تھا اسلئے۔اور پھر گھر والے کہہ رہے تھے کہ  طفیل چلے جاؤ۔تو میرے دوست نے کہا اچھا اچھا.!

    میرے ابو کو بھی استاد نے فون کیا تھا کہ ارسلان کو کہو  کے ٹریپ کے لیے تیار ہو جاؤ۔۔

    باقی سارے لڑکے ایک سائیڈ پر کھڑے تھے ہم دونوں نے کہا چلو ہم بھی چلتے ہیں وہاں ان کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔جیسے ہم دونوں وہاں کھڑے ہوگئے تو ایک اور استاد تھا اس کے پاس موجود تھا اور اس لسٹ میں سب لڑکوں کے نام موجود تھے۔اور ہم دونوں کے نام موجود نہیں تھے۔سر نے کہا کہ آپ دونوں سائیڈ پہے ہو جاؤ۔

    ہم دونوں سائیڈ پے ہو گئے اور باقی جو اسٹوڈنٹ تھے وہ گاڑی میں بیٹھ گئے۔اپنے آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ میرا جگہ گاڑی میں نہیں بننے والا ہے۔بہت پریشان ہو گیا تھا میں جو میرے ساتھ دوست وہ بھی ایک طرف دوسری طرف دیکھ رہا تھا لیکن کچھ اپنے گاؤں دو لڑکے تھے انھوں نے ان کو آواز دیا ارسلان اب آجاؤ ارسلان نے کہا نہیں جگہ بہت کم ہے جب بس فل ہوگیا ہم دونوں رہ گئے تھے۔اس وقت جس استاد نے میرے کزن کو فون کیا تھا وہ میرے پاس آیا طفیل آپ پریشان نہ ہوں اور مجھ سے خفا بھی نہ ہونا کیونکہ گاڈی میں جگہ نہیں ہے۔پھر میں نے کہا نہیں کوئی بات نہیں۔

    پھر میں نے دوست کو کہا چلو چلتے ہیں.

    دوست کہہ رہا تھا نہیں ایک منٹ صبر کرو یہ بس جب سکول سے نکلے گا اس کے بعد چلتے ہیں میںنے کہا ٹھیک ہے۔جب چلا گیا ہم دونوں جارہے تھے واپس اپنے گھر کی طرف تو سکول کی گیٹ سے باہر ہوتی ہیں چوک دار ہمارے اوپر حس رہا تھا۔ہم نے اپنی آنکھیں جھکا کر ہم نے بھی تھوڑا بہت ہنس لیا۔جب آگے گئے تو ہم پہ کچھ پولیس کھڑے تھے ان کو پتہ تھا کہ یہ دونوں ٹریپ سے رہ گئے ہیں وہ بھی ہنس رہے تھے ہماری اوپر۔

    پھر ہم دونوں آگے گئے اور ساتھ باتیں کرتے رہے مجھے گھر فون آیا طفیل بس میں جگہ ہوا کے نہیں۔میں نے کہا کہ نہیں ابو  جگہ نہیں تھا بس میں میں رہ گیا ہوں اور میرے ساتھ ایک اور لڑکا بھی ہے وہ بھی رہ گیا ہے۔

    تو ابو نے کزن کو بتا دیا ک طفیل کی جگہ نہیں ہوا بس میں وہ رہ گیا ہے۔کزن نے  مجھے فون کیا چلو طفیل کوئی بات نہیں تم گھر آجاؤ میں استاد کو فون کرتا ہوں۔میں نے کہا چلو ٹھیک ہے میں آ رہا ہوں گھر۔ مجھے پتا نہیں تھا جب میں گھر پہنچا تو بھائی نے کہا کے کزن نے استاد کو فون کیا تھا اور کزن نے بہت بے عزت کیا استاد کو کہ اپنے طفیل کو کیوں چھوڑا۔اور پھر استاد نے کہا میں طفیل  نہیں چھوڑنے والا تھا۔لیکن میرے ساتھ دوسرا استاد ہیں اس نے کہا  کہ چھوڑو ان دونوں کا نام موجود نہیں تھا لسٹ میں۔اور دوسری بات یہ کہ طفیل بہت شریف لڑکا ہے میں چاہتا تھا کہ اس کو ہم اپنے ساتھ موٹر کار میں بیٹھیا پھر میں نے سوچا کہ وہ بات نہیں کرے گا کیونکہ 3  استاد اور بھی تھے ک کہیں یہ بور نہ ہو جائے استادوں کے ساتھ بات بھی نہیں کرے گا اور  یہ پ ںر تنگ ہوجائے گا ہمارے ساتھ گاڑی میں تو اس لئے میں نے طفیل کو کہا کہ آپ خفا نہ ہو جگہ نہیں ہیں اور یہ کہہ کر بھی مجھے بہت برا لگا اس کو میں نے ہی کہا تھا کہ آپ  آ جاؤ۔ اب جو میرے ساتھ دوسرا لڑکا تھا وہ مجھے کہنے لگا مجھے بہت شرم آ رہا ہے میں کیسے چلا جاؤں گھرواپس میں جب گھر سے آرہا تھا سکول تو میرے ساتھ دو تین دوست بھی تھے کچھ راستے تک امیر ساتھ آئے تھے  کہ آپ دس دن کے لیے جا رہے ہو۔انہوں نے میرا بیگ بھی اپنے ہاتھ میں پکڑا تھا کہ نہیں یہ ہم پکڑیں گے۔ اب میں کیا کروں۔میں نے بھی اسے کہہ دیا کہ جیز گاڈی میں میں آیا تھا اس میں میرے ساتھ سارے گاؤں کے لڑکے تھے اب مجھے حیرانگی ہو رہی ہے کہ میں کیا کروں۔جب میں اپنے گھر گیا میں آرام سے اپنے گھر میں داخل ہوا اور سارے کے سارے میری طرف دیکھ رہے تھے طفیل آگیا میں نے بیگ کمرے میں رکھ دیا اور کمرے سے ہنس کر نکلا۔میرے لیے یہ دن بہت سخت تھا لیکن میں نے اس کو خوشی سے گزرا۔ہر ایک بندا پوچھ رہا تھا کہ کیا ہوا کیا ہوا۔میں نے یہ ساری کہانی ان کو سب بتایئں کے سکول میں کہ یہ ہوا وہ ہوا۔چوکیدار بھی ہنس رہے تھے پولیس والے بھی ہنس رہے تھے۔گھر والے سارے حیران رہ گئے کہ طفیل آپ خفا نہیں ہوں۔اصل میں میں بہت خفا تھا لیکن ان کو میں نے کہ دیا نہیں میں خفا نہیں ہوں۔ابو فخر کر رہا تھا میرا بیٹا بہت اچھا ہے۔

    ''کہتے ہیں نہ کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے''   

    تو پھر وہی ہوا اس ٹریٹ میں وہاں پہ لڑکوں کے درمیان میں جھگڑا بھی ہو گیا تھا۔ایک دوسری کو بہت سخت مارا تھا۔پھر کچھ دن بعد اس ٹریٹ میں ہی ایک چوکیدار بھی تھا اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا اسکی ٹانگیں بین ٹھوٹگئ تھی بازو بھی ٹوٹ گیا تھا۔دس دن کا ٹریپ تھا 7 دن میں واپس آگئے۔ پھر کچھ ہی دنوں بعد رمضان کا مہینہ سٹارٹ ہوگیا تھا۔رمضان کے پانچویں دن اوستاد جو میرے کزن کا دوست تھا وہ ہمارے مہمان خانے آیا ہوا تھا مجھ سے ملنے کے لئے۔جب وہ آیا وہ مجھے دیکھتے ہیں تو طفیل کیسے ہو میں نے کہا میں ٹھیک ہوں آپ سناؤ اس نے کہا میں بھی اچھا ہو پھر اس نے کہا اور چوتھا فائل آپ کی بد دعا لگی تھی ٹریپ میں ایکسیڈنٹ بھی ہو گیا تھا چوکیدار کا۔ ٹریپ میں کوئی مزہ نہیں آیا لڑکوں کے درمیان جھگڑا بھی ہو گیا تھا۔مجھے لگتا ہے کہ آپ نے بددعائیں دی تھی ہمیں۔میں نے کہا نہیں استاد میں کیوں کروں گا۔

     یہ میرے لیے ایک یاد گار واقع تھا جب بھی میں اس کو یاد کرتا ہوں تو مجھے بہت ہنسی آتی ہے اور اچھا لگتا ہے اور کبھی کبھار میرے کچھ دوست ہیں وہ مجھ سے پوچھتے ہیں واقعے کے بارے میں اہمیں بتاؤ۔ اور اس طرح کہ کچھ لوگ اس سے سبق حاصل کرتا ہے

    واقعہ یادگار تب بن جاتا ہے جب اس میں آپکو کمپلیٹ چیز نہیں ملتی کچھ چیزیں رہ جاتی ہے پھر وہ واقعہ یادگار بھی بن جاتا ہے جب بھی آپ یاد کرتے ہو اس طرح واقعے کو آپکو خوشی محسوس ہوگی کہ میرے زندگی میں ایسا واقعہ۔اللہ تعالی میرے اساتذہ کو ہمیشہ خوش رکھے ہمیشہ آباد رکھے اور میرے دوستوں کو ہمیشہ خوش رکھے ۔

    آمین۔