بات تو سچ ہے پر بات ہے رسوائی کی

  • آ ج صبح یونیورسٹی گیا تو عزم پاکستان کی ٹیم کیمرہ لیے طلباء اور اساتذہ کے انٹرویو لے رہی تھی ۔ یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہ تھی کیونکہ ہم میڈیا کے طالب علم ہیں اور یہ انٹرویو وغیرہ ہمارے روز مرہ کا حصہ ہیں ۔ لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد جب انھوں نے میرا انٹر ویو لینا چاہااور میں نے ان سے عنوان پوچھا تو عنوان بہت دلچسپ تھا یعنی "عورتوں کا عالمی دن" ۔ اس پر میں نے اپنے تاثرات دیے ۔ چونکہ انٹر ویو میں تاثرات دینے کی ایک لمٹ ہوتی ہے اس لیے میں نے فیصلہ کیا اس موضوع پر اپنے تاثرات لکھ کر بیان کرو ں گا۔

                                           جناب والا اگر سچ پوچھیں تو یہ ایک بہت اچھا موضوع ہے۔ اس لیے نہیں کہ یہ عورتوں کے عالمی دن  کے حوالے سے ہے ۔ بلکہ اس لیے کہ یہ عالمی دن کی کہانی کیا ہے؟ عالمی دن کا ڈرامہ ہمیں کس سمت  لے کے جا رہا ہے؟ اس دن کے علاوہ ہم ایسے کئی دن منا نا شروع ہو گئے ہیں جیسا کہ "والدین کا عالمی دن ، مزدوروں کا عالمی دن وغیرہ وغیرہ ۔

    دراصل ہم  نے مغربی تہذیب سے متائثر ہو کر اپنی تہذیب بھلا دی ہے ۔ حالانکہ میری عمر زیادہ نہیں ہے لیکن جب ہم چھو ٹے تھے ہمیں صرف یہی سکھایا جاتا تھا کہ والدین کی عزت کرو ، بڑوں کا احترام کرو ، اساتذہ والدین کی جگہ ہیں ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہمیں نمازوں پر سزا دی جاتی یہ ہمیں اس اسلام پر چلنے کا بہت سختی سے حکم دیا جاتا ۔ یہ سب مذہب کی باتیں اپنی جگہ سب سے افضل ہیں لیکن یہاں ان چند مخصوص باتوںکا ذکر ہو رہا ہے جو ہمارے زمانے میں تقریبا" ہر گھر میں سکھائی جاتی تھی۔ لیکن جیسے جیسے سائنس ترقی کرتی گئی ہمارے معاشرے کے معیا ر تبدیل ہوتے گئے ۔ رہی سہی کسر مغربی فلموں بلکہ ہماری اپنی مشرقی فلموں نے پوری کر دی۔ میں یہ بھِی نہیں کہوں گا کہ ہمارے بچپن میں جب سائنس نے ترقی نہیں کی تھی سب کچھ زبردست تھا ۔ نہیں ایسا بالکل نہیں۔ اس وقت بھی برے لوگ پائے جاتے تھے جو عورتوں کو اپنا غلام سمجھتے تھے ، اس وقت بھی ایسے لوگ موجود تھے جو اپنی بیٹیوں کو کم تر اور مصیبت سمجھتے تھے ۔ اس وقت بھی ایسے لوگ موجود تھے جو  والدین کی عزت نہیں کرتے تھے ۔ اور اس وقت بھی ایسے لوگ موجود تھے جو اساتذہ کو مارنے پر بھی آجاتے تھے ۔ لیکن  اگر ان  کی اوسط نکالی جائے تو کم تھی۔

                                                                                                                                                                                                             لیکن یہ عالمی دن کا کھیل ہمارے معاشرے میں کیسے جذب ہوگیا؟ بات کچھ یوں ہے کہ ہماری من حیث القوم ایک بہت بری فطرت ہے کہ ہم کوئی بھی کا م میانہ روی سے نہیں کرتے۔ جو لوگ برے تھے جو والدین کی عزت نہیں کرتے تھے ، جو عورتوں کو اپنا غلام سمجھتے تھے ان کی پکڑ تو ہونی ہی ہونی تھی اس میں کوئی شک نہیں کیونکہ برائی کو ایک دن مرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ یہ ظلم سہہ رہے تھے ، ان کی فتح لازم تھی ۔ لیکن یہ فتح اتنا سخت بدلہ لے گی یہ کسی کو معلوم نہیں تھا ۔ ہم نے سائنس کی دنیا میں قدم کیا رکھا ہماری تو دنیا ہی تبدیل ہو گئی ۔ ہر لمحہ والدیں کی فرمانبرداری کرنے والے ترقی کی رفتار میں اس قدر کھینچے چلے گئےکہ انھوں نے والدیں کی خدمت کا نیا حربہ ڈھونڈ نکالاکہ اگر سال میں ایک دن اگر والدین کیلئے مخصوص کر دیا جائے تو ان کا فر ض ادا ہو جایا کرے گا۔ اسی طرح کچھ عورتیں بھی سائنس سے بہت زیادہ متاثر ہوئیں۔ اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہ عورتیں پہلے سے ہی روشن خیال تھیں۔ ان کو نہ عزت کے لیے کبھی قتل ہونا پڑا نہ کبھی بیٹی پیدا کرنے پر مار کھانی پڑی ۔ بس ایک روشن خیال طبقہ اٹھا اور اس نے آزادی مانگنا شروع کر دی اور بہت سی روشن خیال عورتوں نے تو خوب پیسا بھی کمایا ۔ لیکن ان کی اس روشن خیالی نے پہلے سے موجود مظلوم طبقہ کیلئے اور مشکلات پیدا کردی ۔ اب وہ مظلوم طبقہ اس بات سے ڈرنے لگا کہ کہیں ان کو اس الزام میں نہ قتل کر دیا جائے کہ وہ بھی ان روشن خیال عورتوں سے متاثر تو نہیں ۔ اس  روشن خیال طبقے کی آواز سے کچھ حد تک تبدیلی بھی آئی ۔ لیکن ماحو ل زیادہ خراب ہوا ۔ اب جو عورت کسی گاوں میں رہتی ہے شاید اس کو صرف اتنی مہلت مل گئی کہ اگر بیٹی پیدا ہوئی تو اسےما ر نہیں کھانی پڑی یا اس کو اس بار پر قتل نہیں کیا گیا کہ وہ سکول  جانا بلکہ یونیورسٹی جانا چاہتی ہے۔ لیکن اس گاوں کی عورت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس بھی خوب ہے کہ بچوں پر توجہ بھی دینی ہے ۔ ان کی روحانی تربیت بھی کرنی ہے ۔ یہ ساری باتیں ایک گاوں بلکہ درمیانہ طبقے کی تقربیا" ہر عورت کو پتہ ہیں ۔

    لیکن بڑے شہروں کی چند روشن خیال عورتیں شاید اب یہ چاہتی ہیں کہ ان سے اس با ت کا بھی مت پوچھا جائے کہ وہ کہاں جا رہی ہے اور کب واپس آئے گی ؟ بلکہ یہ تو اب دور کی بات ہے اب تو یہ بھی عورت کی غلامی سمجھا جا رہا ہے کہ عورت  اگر  لباس پہنے تو اس میں بھی مرد کوئی تبصرہ نہ کرے ۔ اور جب آدھے ادھورے کپڑے پہن کر وہ باہر نکلے تو مرد اسے دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کر لے لیکن انھیں ان کے غریب لباس پر کوئی کچھ نہ کہے ۔ صاحب اصل میں بات اور کوئی نہیں بلکہ    بات تو سچ ہے پر بات ہے رسوائی کی ۔

    محمد عبداللہ

0 comments